ماہ رمضان کا استقبال


3135
تفصیل
رمضان کا مہینہ ایک معزر مہینہ ہے۔اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں پر فضیلت بخشی ہے۔ اس مہینہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان جتلایا ہے کہ وہ اس نے ان کے لیے جہنم سے آزدای کی امید کا دروازہ کھول دیا ہے۔ لہذا مومنوں کے لیے لائق ہے کہ اس معزز مہینہ کی اس کی آمد سے پہلے ہی تیاری شروع کر دیں۔ یہ مہینہ نہایت محترم ومبارک مہمان ہے جو سال میں صرف ایک بار ہمارے پاس آتا ہے۔

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذبالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله۔

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) [آل عمران: 102]

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ) [النساء: 1]

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا 70 يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) [الأحزاب:70 - 71]

أما بعد فإن أصدق الحدیث کتاب اللہ، وأحسن الھدی ھدی محمد، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ فی النار۔

وقال اللہ سبحانہ وتعالی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون ) [البقرة: 183]

”اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔”

وقال سبحانہ ( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآَنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ) [البقرة: 185]

”ماه رمضان وہ ماہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔”

بھائیو! آپ نے بہت ہی اچھے مہینہ کا اور بہت زیادہ نفع بخش موسم کا استقبال کیا ہے۔ لیکن یہ اسی شخص کے لیے مفید ہے، جسے اللہ تعالیٰ اس مبارک مہینہ میں نیک عمل کرنے کی توفیق دے۔ آپ نے ایسے مہینہ کا استقبال کیا ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا۔ ایسے مہینہ کا جس میں نیکیاں کئی گنا کر دی جاتی ہیں، اور گناہ بڑے سنگین قرار دیئے جاتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے، جس کا پہلا حصہ رحمت ہوتا ہے، درمیانہ حصہ بخشش کا ہوتا ہے، اور آخری حصے میں جہنم سے آزادی ملتی ہے۔

اس مہینہ میں دن کے روزے کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا ایک رکن قرار دیا ہے اور اسے فرض ٹھہرایا اور اس کی رات کے قیام کو آپ کے فرائض کی تکمیل کے لیے اس نے نفل قرار دیا ہے، جس نے اس ماہ کا روزہ رکھا، اس کی فرضیت پر یقین کرتے ہوئے اور اللہ سے ثواب پانے کی امید کرتے ہوئے تو(شرک کے علاوہ)اس کے سابق تمام گنا ہوں کو اللہ معاف کردےگا۔ جو شخص اس کی رات میں قیام کرےگا(شرک کے علاوہ )اس کے سارے سابقہ گناہ اللہ معاف کردےگا۔ اس مہینہ میں جوشخص عمرہ کرےگا اس کا عمرہ حج کےبرابر ہوگا۔ اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ اور اہل ایمان کے فرماں بردارانہ عمل میں کثرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اہل ایمان کی نافرمانیاں کم ہوجاتی ہیں۔ اور شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ شیاطین اہل ایمان کے پاس اس طرح نہیں پہنچ پاتے، جس طرح غیر رمضان میں پہنچ جاتے ہیں۔

اس ماہ مبارک کے فضائل وخوبیوں کے بارے میں اور ان سے مستفید ہونےکے لیے، میرے بھائيو! چند قیود و شروط ہیں، جن کی پابندی کرنے پرہی آپ ان سےفائدہ پاسکیں گے، جو درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:

“عن أبی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: قال اللہ “کل عمل ابن آدم لہ إلا الصیام، فإنہ لی وأنا أجزی بہ، والصیام جنۃ فإذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب، فإن سابہ أحد أو قاتلہ فلیقل: إنی إمرؤصائم، والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسک۔ للصائم فرحتان یفرحھما: إذا أفطر فرح بفطرہ، وإذا لقی ربہ فرح بصومہ” (صحیح البخاری، کتا ب الصوم، باب یقولأنی صائم إذا شتم)

“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا: بنی آدم کاہر ایک عمل اسی کے لیے ہے؛ مگر روزہ میرے لیے ہے، اور میں اس کابدلہ دوں گا، اور روزہ (جہنم سے بچنے کی)ڈھال ہے، جب تم سے کسی کاروزے کادن ہو، یعنی وہ روزے سے ہو، پس اسے چاہئے کہ وہ بےہودہ گوئی نہ کرے اور نہ شورو غل مچائے۔ اگر کوئی اسے گالی دے، یا اس سے جھگڑے تو وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے! یقیناً روزے دار کے منہ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہوںگی، جن سےوہ خوش ہوگا؛ ایک یہ کہ جب وہ افطار کرےگا، تو اپنے افطار سےخوش ہوگا۔ اور دوسری یہ کہ جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرےگا، تو خوش ہوگا۔

بھائيو! رمضان کے چاند کی رؤیت ثابت ہوجانےپر ہی روزہ رکھو۔ چاند کی رؤیت سےایک یادو دن پہلے روزہ نہ رکھو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اِلاّ یہ کہ وہ شخص جس پر گزشتہ رمضان کی قضاباقی ہو، تو وہ اسے پورا کرلے، یا وہ شخص جسے ہر ماہ کے آخر میں روزہ رکھنے کی عادت ہو، تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔ جیسے کسی کو پیر یا جمعرات کو روزہ رکھنے کی عادت ہو، اوراتفاق سے یہ اس دن کے مطابق ہوگئے ہوں، یا اس کو ایام بیض (یعنی ہر مہینہ کی تیرہوں، چودہویں اور پندرہویں کی تاریخوں میں) روزے رکھنے کی عادت ہو،جو اس سے فوت ہوگئے ہوں، تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ مہینہ کے آخری ایام میں رمضان سے ایک یا دو یا تین دن پہلے وہ فوت شدہ روزے رکھ لے۔

آپ شک کے دن یعنی شعبان کےتیسویں دن کا روزہ نہ رکھیں۔ جبکہ اس کی رات کو بادل یا کوئی خرابی وغیرہ چاند کی رؤیت میں رکاوٹ بن گئی ہو۔ حدیث میں آیا ہے:

“عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: الشھر تسع وعشرون لیلۃ فلا تصوموا حتی تروہ فإن غم علیکم فأکملوا العدۃ ثلاثین” (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب قول النبی إذا رأیتم الھلال فصوموا)

“وعن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ یقول: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: “صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ فإن غم علیکم فأکملوا عدۃ شعبان ثلاثین” (أیضا)

“وقال عمار بن یاسر: من صام الیوم الذی یشک فیہ فقد عصی أبا القاسم” (أیضا)

“حضرت عبد اللہ بن عمر رضی عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے۔ پس تم لوگ روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو۔ اگر تمہیں بدلی نظر آئے تو (شعبان کے)تیس کی گنتی مکمل کرلو۔

“ نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم لوگ چا ند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی روزہ ختم کرو اور عیدالفطر پڑھو۔ اگر چاند تمہاری نظروں سے اوجھل رہے تو(شعبان کے مہینہ کی) تیس دن کی گنتی پوری کرلو۔

“ عمار بن یاسر نے کہا کہ جس نے شک کے دن روزہ رکھا، اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔

جس ایماندار مسلمان نے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو، پہلی رات کا چاند یقینی طور پر دیکھا،اسے چاہئے کہ مکہ مکرمہ کے اصحاب اختیار کو خبر کردے، اور اسے ہرگزنہ چھپائے۔ اور جب وہ لوگ مکہ مکرمہ کی رؤیت ہلال کمیٹی میں تحقیق کراکے تمہارے قبلہ “مکہ مکرمہ” کے ریڈیویا ٹیلیویژن میں رمضان داخل ہونے کا اعلان کرادیں، توتم لوگ اس اعلان کے بعد صبح صادق سے روزہ رکھنا شروع کرو۔ اسی طرح جب ماہ شوال داخل ہونے کے ثبوت کے طورپر اعلان ہو جائے، تو روزہ رکھنے یا توڑنے کا حکم معتبر ہوتاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“صوموا لرؤیتہ وأفطروالرؤیتہ”(صحیح البخاری، کتاب الصوم،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأیتم الھلال فصوموا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم یا یہ خطاب کسی ایک شہر یا کسی ایک ملک کے لیے مخصوص نہیں۔ بلکہ یہ خطاب دنیاکے تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مخاطب لوگوں میں سے ہر ایک کے لیے فرداً فرداً چاند دیکھنا لازمی نہیں؛ بلکہ ان مخاطبین میں سے کسی ایک فرد کا،بشرطیکہ وہ ایماندار ہو، خواہ مکہ مکرمہ کا ہو، یا مکہ مکرمہ سےباہر کسی شہر یا کسی ملک یادنیا کے کسی بھی خطے کا ہو، اس ایک فرد کا چاند دیکھنا ہی تمام مسلمانوں کے چاند دیکھنے کے قائم مقام ہے، اور تمام مسلمانوں پر وہ چیز واجب ہوجائےگی، جو اس چاند دیکھنے والے ایماندار مسلمان پر واجب ہوگی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح اپنے شہر کے ایماندار شخص واحد کی رؤیت ہلال کو معتبر مان کر شہر کے تمام لوگوں میں روزے کا اعلان کرادیا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شہر کے علاوہ دوسرے شہر کے کسی بھی مومن کی رؤیت ہلال کی گواہی پر بھی اپنے شہر میں عید کا اعلان فرمادیا تھا؛ جبکہ یہ گواہ دوسرے شہر سے تیز رفتار اونٹ کی سواری پر دوسرے دن کے آخری وقت میں مدینہ منورہ پہنچا تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دوسرے شہر کے گواہ سے ایمان کے علاوہ یہ نہیں دریافت فرمایا کہ وہ کتنے قریب یا کتنے دور سے آیاہے۔ لہذا رؤیت قبول کرنے میں صرف ایمان معتبر ہے اور قرب وبعد کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور ایماندار گواہ خواہ ایک ہو، یا زیادہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

صوم کےاثبات وجوب کے لیے چاند کا اعتبار ہوتاہے:

“عن ابن عمررضی اللہ عنھما قال: ترائ الناس الھلال، فأخبرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إنی رأیتہ، فصامہ وأمر الناس بصیامہ” (صحیح سنن أبی داود، کتاب صوم، باب فی شھادۃ الواحد علی رؤیۃ ھلال رمضان)

“ابن عمر نے کہا کہ لوگوں نے پہلی رات کا چاند دیکھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے بھی یہ چاند دیکھا ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا روزہ رکھا، اور لوگوں کو حکم فرمایاکہ وہ روزہ رکھیں۔

“عن أبی عمیر بن أنس قال حدثنی عمومۃ لی من الأنصار من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: “غم علینا ھلال شوال فأصبحنا صیاما، فجاء رکب من آخر النھار فشھدوا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إنھم رأوا الھلال بالأمس، فأمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یفطروا من یومھم وأن یخرجوا لعیدھم من الغد” (مسند أحمد، حدیث رجال من الأنصار ص:39، وصحیح سنن أبی داؤد، تفریع أبواب الجمعۃ، باب إذالم یخرج الإمام للعید من یومہ یخرج من الغد)

“حضرت ابو عمیر بن انس نے کہا کہ اصحاب رسول میں سے میرے ایک انصاری چچا نےحدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ شوال کی رؤیت ہلا ل کے وقت ہم پر بادل چھایاہوا تھا۔ چنانچہ ہم نےروزہ رکھ کر صبح کی۔ پھر دن کے آخری وقت میں اونٹ سواروں کا ایک وفد آیا، اور ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دی کہ ان لوگوں نے کل شام کو چاند دیکھا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم فرمایا کہ لوگ اپنے اس دن کا روزہ توڑدیں اور کل صبح عید کے لیے نکلیں۔”

“عن عبد الرحمن بن أبی لیلی قال: “کنت مع عمر فأتاہ رجل فقال: إنی رأیت الھلال -ھلال شوال-، فقال عمر رضی اللہ عنہ: یا أیھا الناس! أفطروا” (مسند أحمد: 1/28)

“حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ میں عمر کے ساتھ تھا، تو ایک آدمی آپ کے پاس آیا ،اور اس نے کہا، کہ میں نےچاند دیکھا یعنی شوال کا چاند۔ تو عمر نے فرمایا کہ اے لوگو! تم لوگ روزہ توڑدو۔”

“عن عبد الرحمن بن أبی لیلی قال: “کنت مع البراءبن عازب وعمر بن الخطاب رضی اللہ عنھما فی البقیع ینظر إلی الھلال، فأقبل راکب فتلقاہ عمررضی اللہ عنہ، فقال: من أین جئت؟ فقال: من العرب، قال: أھللت؟ قال: نعم، قال عمر: اللہ أکبر، إنما یکفیالمسلمین الرجل” (مسند أحمد، أول مسند عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ:332)

“عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہاکہ میں براء بن عازب کے ساتھ تھا، اور عمر بن الخطاب بقیع میں چاند دیکھنے میں مصروف تھے۔ اسی اثنامیں ایک سوار آیا، تو عمر نے اس سےملاقات کی، پھر پوچھاکہ تم کہاں سے آئے؟ اس نے جواب دیا کہ عرب سے، عمر نے پھر سوال کیا کہ کیا تم نے چاند دیکھا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ عمر نے (خوشی)سے “اللہ اکبر” کہہ کر فرمایا کہ بےشک ایک مسلمان آدمی کا چاند دیکھنا تمام مسلمانوں کے لیے کافی ہے۔”

جب رؤیت ہلال کی خبر پہنچانےکے عالمی وسائل موجود نہیں تھے، تو جس قدر مسلمانوں کو خبر پہنچائی گئی انہیں وہ خبر قبول کرنا ضروری ہوا۔اور آج جب پوری دنیاکے مسلمانوں کو یہ خبر پہنچانے کے عالمی وسائل مہیا ہوگئے، جن کے ذریعہ یہ خبرپہنچائی جاتی ہے، تو دنیا کے سارے مسلمانوں کو یہ خبر قبول کرنا ضروری ہے۔ اب کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت رسول اپنے مذکورہ قول وعمل کے ذریعہ، اور مذکورہ صحابۂ کرام نے بحیثیت ناقل فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی روایتوں کے ذریعہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے بحیثیتِ خلیفہ اپنے مذکورہ فرمان کے ذریعہ ایک ایماندار مسلمان کی رؤیت ہلال کو، قطع نظر قریب دور،صرف ایمان کی بنیاد پر، دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے معتبر سمجھا، اسی طرح رؤیت ہلال میں اعتبار تعمیم کے نقطۂ نظر سے قریب یا دور، دنیا کے کسی بھی شہر یا ملک کے ایک ایماندار مسلمان کے چاند دیکھ لینے پر، اگر اس کی خبر قبلۂ اسلام کی طرف سے دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے نشر کردی جاتی ہے، تو درجِ ذیل محدثین وفقہائے کرام بھی ایسی رؤیت کو دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے معتبر سمجھتے ہیں:

(۱)شیخ امام زہری رحمہ اللہ، (۲)امام مالک رحمہ اللہ، (۳)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، (۴)شیخ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، (۵)شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، (۶)شیخ امام محمد شوکانی رحمہ اللہ، (۷)شیخ علامہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ، (۸)شیخ علامہ صدیق حسن خاں رحمہ اللہ، (۹)شیخ علامہ محمد احمد شاکر رحمہ اللہ، (۱۰)شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ، (۱۱)شیخ علامہ محمد بن عثمین رحمہ اللہ،

رمضان کا روزہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسےاپنے بندوں پر فرض قرار دیاہے۔ پس جس نے اس کا انکار کیا، وہ کافر ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کو، اس کے رسول کو اور مسلمانوں کے اجماع کو جھٹلانے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) [البقرة: 183]

”اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔”

نیزاللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآَنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) [البقرة: 185]

”ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے۔”

روزہ ہر ایک مسلمان پر واجب ہے، جو بالغ ہو،عقل مند ہو، مستطیع اور مقیم ہو۔ خواہ وہ مرد ہو، یا ایسی عورت ہو، جو حیض یا نفاس میں نہ ہو۔ مریض مرد یا عورت اور حیض یا نفاس والی عورت اپنا روزہ آئندہ رمضان سے پہلے کسی وقت قضا کرلے۔ اگر دشواری ہو تو چھوٹے ہوئے روزوں کے برابر مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلادے۔ حاملہ عورت اور مسافر بھی اپنے چھوٹے ہو روزے آئندہ رمضان سے پہلے قضا کرلے۔

روزہ کافر پر واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کے اندر اسلام قبول کرلے، تو آنے والے روزے اس پر واجب ہو جاتے ہیں البتہ اس ماہ کے گزرے ہوئے روزے قضا کرنا اس پر لازم نہیں ہے۔ اوراگر اس نے رمضان کے دن کے اندر صبح صادق کے بعد اسلام قبول کیا ہے، تو اس دن کے روزہ کی قضا اس پرلازم نہیں۔ لیکن بقیہ دن غروب آفتاب تک وہ روزہ فاسد کرنے والی چیزوں کا ارتکاب نہ کرے۔

اگرچہ نابالغ بچوں پر روزہ واجب نہیں. تاہم اگر ان بچوں کو روزہ رکھنے میں کوئی خاص دشواری نہ ہو، تو انہیں روزہ کے لیے ترغیب دینی چاہئے تاکہ انہیں روزہ رکھنے کی عادت ہو جائے۔ صحابہ کرام بھی اپنے بچوں کو روزے رکھواتے تھے۔ یہاں تک کہ جب بچے روزے میں بھوک سے رونےلگتے، تو انہیں کھلونے دے کر غروب آفتاب تک بہلاتے تھے۔

أقول قولی ھذا، واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین من کل ذنب، فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم۔

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذبالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله۔

أما بعد فإن أصدق الحدیث کتاب اللہ، وأحسن الھدی ھدی محمد – صلی اللہ علیہ وسلم-، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ فی النار۔

قال اللہ سبحانہ وتعالی:

( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [الزمر: 10]

” صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا اجر بلا حساب دیا جاتا ہے۔”

محترم بھائیو! رمضان کایہ مبارک مہینہ جس کاآپ نے استقبال کیا، صبر کا مہینہ ہے۔ دیگر مہینوں میں جو چیزیں آپ پر حلال تھیں، ان میں سے بہت سی چیزوں سے آپ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک بغیر کسی پہرےدار کے اجتناب کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں آپ کے سامنے ہونے کے باوجود آپ انہیں استعمال نہیں کرتے۔ ان چیزوں کی لذتوں سے آپ آشنا ہونے کے باوجود آپ اللہ کے واسطے انہیں ہاتھ نہیں لگا تے اور صبر سے کام لیتے ہوئے غروب آفتاب کا انتظار کرتے ہیں۔ خاص کر گرمی کے ایام میں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس صبر کے امتحان میں کامیابی عطا فرمائے۔

آپ روزے کی حالت میں کھانا اور پانی ترک کرتے ہیں، شہوت ترک کرتے ہیں، لڑائی جھگڑوں سے بچتے ہیں، غیظ وغضب اور گالی گلوچ سے بچتے ہیں اور دل کو اللہ کی یاد، ذکر وفکراور تلاوت کلام پاک میں لگاتے ہیں۔ بےشک دل کو ذکر وفکر کے لیے یکسو کرنا بہت بڑی بات ہے۔ شہوت، دل کو سخت اور اندھابناتی ہے۔ کھانےاور پانی سے پیٹ کو بھرنے کے بجائے اسے کچھ خالی رکھنا دل کو منور کرتاہے۔ اس میں تواضع پیدا کرتا ہے اور اس کی سختی کو دور کرتا ہے۔

روزےدار کی دو قسمیں یا دو طبقے :

پہلا طبقہ، ان لوگوں کا ہے جو روزے کی حالت میں اللہ کے لیے اپنا کھانا، پینا اور اپنی شہوت چھوڑ کر، اس کے بدلے اللہ سے جنت پانے کی امید کرتے ہیں۔ اس طبقہ نے گویا اللہ کے ساتھ تجارت کی اور اللہ سے معاملہ کیا۔ اور اللہ ایسے شخص کااجر ضائع نہیں کرتا، جو اچھا عمل کرتا ہے۔ پس ایسے روزےدار کو اللہ تعالیٰ جنت میں جس قدر کھانا، پینا اور خدمت کے لیے جتنی دوشیزائيں دینا چاہے دےگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ [الحاقة: 24]

(ان سے کہا جائے گا) کہ مزے سے کھاؤ، پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزشتہ زمانے میں کیے۔”

مجاہد وغیرہ مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت روزےداروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

“عن سھل (بن سعد) رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:إن فی الجنۃبابا یقال لہ الریان، یدخل منہ الصائمون یوم القیامۃ لا یدخل معھم أحد غیرھم”

“حضرت سہل (بن سعد) رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے، جس کا نام”ریان” ہے، جس سے قیامت کے دن روزےدار ہی داخل ہوں گے۔ ان کے ساتھ ان کے علاوہ دوسرا کوئی داخل نہ ہو سکےگا۔

دوسرا طبقہ، روزےدار وں کا ان لوگوں پر مشتمل ہوگا، جو دنیا میں (روزے کی حالت میں ) اللہ کے علاوہ ہر چیز سے قطع تعلق کیے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سر اور اس کے متعلقات کی حفاظت کرتے ہیں، پیٹ اور اس کے مشتملات کی حفاظت کرتے ہیں اور موت ومصیبت کی یاد میں دنیا کی زیب وزینت کوچھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ عید الفطر ان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( مَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآَتٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ) [العنكبوت: 5]

”جسے اللہ کی ملاقات کی امید ہو پس اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت یقیناً آنے والا ہے، وه سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے”

اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں فرمایا:

“کل عمل ابن آدم لہ إلاالصیام، فإنہ لی وأناأجزی بہ” (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب ھل یقول إنی صائم إذا شتم)

“روزے کے علاوہ ہر نیک عمل کا اجر بندہ کو ملتا ہے؛البتہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کا ثواب میں اپنے ہاتھ سے خود دوں گا۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [الزمر: 10]

” صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا اجر بلا حساب دیا جاتا ہے۔”

اس مہینہ میں بھلائی واحسان اورخیر خواہی کا کام زیادہ سے زیادہ کرناچاہئے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ میں جودوسخاکے کام بہت زیادہ کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اللھم أغفر لجمیع المسلمین، ووفقنا وإیاھم لصیام رمضان وقیامہ، وتقبل منا ومنھم، اللھم أعز الإسلام والمسلمین، وأخذل الکفرۃ والمشرکین،

عباد اللہ! إن اللہ یأمر کم بالعدل والإحسان، وإیتاء ذی القربی، وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی، یعظکم لعلکم تذکرون، وصلی اللہ علی النبی وسلم تسلیما کثیرا۔





متعلقہ:




اعتکاف